سید نصرت جاوید
عمر کے ساٹھ سال گزرجانے کے بعد صحت کے حوالے سے اٹھے سوالوں کے تناظر میں ابھی تک میں کافی خوش نصیب ثابت ہورہا ہوں۔ احتیاط مگر ضروری ہے۔ بلڈپریشر کو قابو میں رکھنا اور دل کو بائی پاس آپریشن سے بچانا اس ضمن میں اہم ترین ہیں۔ میرے لئے ام الامراض ثابت ہوسکتی ہے تو وسوسوں اور اندیشوں کی وجہ سے رات بھر کروٹیں لیتی بے خوابی۔جلد سونے کی عادت ڈال رہا ہوں اور اسے یقینی بنانے کے لئے بلڈپریشر اور دل کے دورے سے محفوظ رکھنے والی گولیوں کے ساتھ نیند لانے والی گولی کا استعمال بھی ضروری ہوچکا ہے۔ منگل کی رات یہ سب کرنے کے باوجود مگر میں سو نہیں سکا۔
میرے بستر پر جانے سے چند ہی لمحے قبل مجھے مقبوضہ کشمیر کے کئی قصبوں اور چھوٹے شہروں میں ریکارڈ ہوئے چند وڈیوزWhatsappکی وساطت ملے۔یہ وڈیوز جس شخصیت نے بھیجے تعلق ان کا سری نگر سے قدیمی ہے۔ ’’پاکستان سے رشتہ کیا۔ لاالہ الاللہ‘‘اور ’’کشمیر کی منڈی-راولپنڈی‘‘ کے نعرے لگانے والی پارٹی ہیں۔ مجھ ایسے ’’لبرل‘‘گنہگار کو مگر بھائیوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔
انہوں نے جو وڈیوز بھیجے ہیں ان میں 9سے 14\15سال کے بچے ہاتھوں میں پتھر یا درختوں سے اتاری ٹہنیاں لئے پولیس، پیرا ملٹری اور فوج کی گاڑیوںاور کانوائے پر نعرے لگاکر ’’حملہ‘‘ کرتے ہوئے انہیں ہر طرح سے مشتعل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مقامی پولیس بجائے جوابی وار کرنے کے دم دباکر بھاگنے کو ترجیح دیتی نظر آرہی ہے۔ پیرا ملٹری اور فوج والے مگر کافی دیر تک پیشہ ورانہ رعونت کے ساتھ ان ’’لونڈوں‘‘ کو نظراندازکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔قابض افواج میں برداشت کی مگر ایک حد ہوتی ہے اور بالآخر وہ لمحہ آجاتا ہے جب پیراملٹری فورس کی گاڑی یا ٹرک سے جدید ترین بندوق سے ہوا میں فائر کرتا کوئی جوان نیچے اتر کر میدان میں آجاتا ہے۔ اس کی ہوائی فائرنگ لونڈوں کو خوفزدہ ہوکر بھاگنے پر مجبور نہیں کرپاتی تو اس کے اور ساتھی بھی میدان میں اترآتے ہیں۔ تاک تاک کرچند سرپھرے بچوںکو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان گولیوںمیں ایسے چھرے ہیں جو جسم میں سینکڑوں سوراخ کردیتے ہیں۔ آنکھوں تک پہنچ جائیں تو بچے عمر بھر کے لئے بینائی سے محروم ہوسکتے ہیں۔ ان چھروں سے بچنے کے لئے لونڈے تھوڑی دیر کو ’’پسپا‘‘ ہوتے ہیں مگر اچانک کسی کونے کھدرے سے ان ہی میں سے کوئی کہیں سے کپڑے کا کوئی بڑا ساٹکڑا ڈھونڈ کر اسے درختوں سے اتاری ٹہنی پر Fixکرکے ماچس کی تیلی دکھاکر اپنی دانست میں ’’میزائل‘‘ کی صورت دے کر گولیاں برسانے والوں کی جانب پھینک دیتا ہے۔ گولیاں برسانے والوں کا بگڑتا تو کچھ نہیں مگر وہ مزید اشتعال میں آجاتے ہیں۔ان کی وحشت کا ایک اور رائونڈ شروع ہوجاتا ہے۔
مجھے جو ویڈیوز بھیجی گئیں وہ سمارٹ فونز کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے مختلف قصبوں اور چھوٹے شہروں میں اتوار اور منگل کے درمیانی دنوں میں ریکارڈ ہوئی ہیں۔ مجھے ان کے مستند ہونے میں ذرا برابر بھی شک نہیں اور انہیں بھیجنے والے کی نیت پر کوئی سوال اٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ان وڈیوز کو کئی بار چلانے کے بعد میں یہ دریافت کرپایا کہ پولیس، پیرا ملٹری اور فوج کو گلی گلی للکارنے والے ہجوم میں خال ہی کوئی ایسا بچہ ہوگا جو سترہ یا اٹھارہ برس کا نظر آئے۔ تمام تر بچے 9سے 14/15سال کی عمر والی بریکٹ کی ترجمانی کرتے ہیں۔یہ ویڈیوز بھیجنے والا تربیت یافتہ کشمیری مجاہدین کی دل سے عزت کرتا ہے مگر خود کو مسلح جدوجہد کے قابل نہیں سمجھتا۔صحافت اور ادب اس کی کمزوری اور ارمان ہیں۔ اس کے حساس دل کو شدید دُکھ ہورہا تا تو اس بات کا 9سے 14/15سال کی بریکٹ کے درمیان محصور ہوئے کشمیر کے یہ بچے اپنے عمومی رویے میں موت سے قطعی لاپرواہ ہوکر تقریباََ خودکش ہوگئے ہیں۔ ہر لمحہ مرنے کو تیار ان بچوںکو اگر کہیں سے اسلحہ یا فوجی تربیت مل گئی تو کیا ہوگا؟ کشمیر افغانستان بن جائے گا۔ جہاں یقینی امن وامان کے سائے تلے زندگی کی خوب صورتیوں سے پیار کرنے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہے گی۔
ساری عمر ’’کشمیر بنے گا-پاکستان‘‘ والا نعرہ لگانے کی وجہ سے کئی بار جیلوں میں جانے اور قابض افواج کے زیر حراست وحشیانہ تشدد سے گزرنے کے باوجود میرے حساس دوست کو فکر تھی تو صرف اتنی کہ اپنی ننھی جانیں ہاتھوں میں لے کر پولیس، پیرا ملٹری اور فوجی قافلوں کو اس’’خودکش‘‘ انداز میں للکارنے والوں کو ’’ذرا ہوش میں آنے کے لئے ‘‘کیسے مجبور کیا جاسکتا ہے۔
ساری رات کروٹیں بدلتے ہوئے میں نے اس سوال کا جواب دینے کی دیانت دارانہ مشقت کی۔نام نہاد Conflict Resolutionسے وابستہ کئیGame Theoriesبھی میرے ذہن میں آئیں۔ان میں سے کئی ایک کو میں نے نیم حکیمانہ انداز میں کشمیر کی موجودہ صورت حال کے ساتھ جوڑ کر Resolutionکی کوئی صورت ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی۔ مجھے کوئی بھی قابلِ عمل طریقہ دریافت نہیں ہوا۔ دل بلکہ یہ سوچ کر مزید کانپ اٹھا کہ درختوں سے ٹہنیاں اتار کر انہیں لاٹھی کی شکل دینے اور ہاتھوں میں پتھر اٹھاکر جدید ترین اسلحہ سے لیس پولیس، پیرا ملٹری اور فوج کو للکارتے یہ بچے اندھے غصے کا شکار ہوچکے ہیں۔نفرتوں سے بھرا غم وغصہ جس کو شاید وہ لوگ بھی قابو میں نہیں لاپائیں گے جو گزشتہ کئی برسوں سے حریت کانفرنس پر مبنی جماعتوں سے متعلق ہونے کی بناء پر تحریک ِآزادی کے ’’ہیرو‘‘ شمار ہوتے ہیں۔
بھارتی پالیسی سازوں نے سفاکانہ مہارت کے ساتھ تحریکِ آزادی کے صف اوّل کے رہ نمائوں کو سوچی سمجھی حکمت عملی کے ساتھ زندہ رہنے دیا ہے۔ وحشت وبربریت کے ساتھ جان بوجھ کر ایسے رہ نمائوں کی دوسری یا تیسری درجے کی قیادت کو چن چن کر مارڈالا گیا۔ یہ حکمت عملی شاید تحریک ِ ِآزادی کے رہ نمائوں کو ایک منظم چین آف کمانڈ کے ذریعے لوگوں سے کسی بھی نوعیت کے سیاسی رابطوں کو ناممکن بنانے کے لئے اختیار کی گئی۔
9سے 14/15سال کے بچوں کے پاس مگران دنوں سمارٹ فونز ہیں اور ان کی انٹرنیٹ تک مکمل رسائی ہے۔ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں ’’خود مختار‘‘ ہوچکے ہیں۔ کسی بھی سیاسی نظم کے تابع نہیں رہے۔ مرنے کو ہر لمحہ تیار ان بچوں کے دلوں میں بھرے غصے اور نفرت کو Addressکرنا ضروری ہے۔ ورنہ یہ غصہ قابض افواج پر کئی دنوں تک نکال لینے کے بعد اب تک معتبر گردانے تحریکِ آزادی کے رہ نمائوں کی طرف منتقل ہوجائے گا۔ بات صرف ان رہ نمائوں تک محدود نہیں رہے گی۔مستقل مایوسی اور بے کسی بالآخر انہیں پاکستان سے بھی قطعاََ ناراض کردے گی۔ اس ناراضی کے پیدا ہوجانے کے بعد پاکستا ن بھی Conflict Resolutionکے ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کر پائے گا۔ بتدریج جنوبی ایشیاء بالکل ویسی ہی افراتفری کا شکار ہوا نظر آئے گا جو ان دنوں عراق، لیبیا،شام اور افغانستان جیسے ملکوں اور ان کے ہمسائے میں نظر آرہی ہے۔
(بشکریہ نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں