جمعرات، 21 جولائی، 2016

طنز و مزاح : نہیں بھائی نہیں!


کہتے ہیں کسی زمانے میں ایک شخص نے اپنی زندگی سے پریشان ہو کر خودکشی کا ارادہ کیا۔ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ گھر سے روانہ ہوا تو کچھ پھل اور سبزیاں وغیرہ بھی ساتھ لے لیے۔ رستے میں ایک دوست ملا اور حال چال دریافت کیا تو جواب میں اس شخص نے روتی ہوئی صورت میں سارا مدعا بیان کردیا۔ دوست نے حیرت سے پوچھا کہ بھئی مرنے جا رہے ہو تو یہ پھل اور سبزیاں کیوں ساتھ ہیں؟ اس شخص نے برا سا منہ بنا کر کہا کہ اگر گاڑی لیٹ ہو گئی تو مجھے کھانا کون دے گا؟
جب سے الطاف حسین کا مرتے دم تک بھوک ہڑتال کا فیصلہ اور اس کے لیے مقامی انتظامیہ سے اجازت طلب کرنے کے بارے میں پڑھا ہے، بار بار یہی لطیفہ ذہن میں آرہا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ قائد تحریک اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی زندگی سے پریشان ہیں جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر گورے و کالے رینجرز والے ہیں۔ علاوہ ازیں برطانوی قوانین کے مطابق تادم مرگ بھوک ہڑتال نہیں کی جاسکتی اس لیے اس سفر پر روانہ ہونے سے پہلے پھل اور سبزیاں وغیرہ ساتھ رکھنا بھی ان کی مجبوری ٹھہری۔
خدشہ ہے کہ اس بار قائد تحریک کے اپنے ہی ساتھی بھائی انہیں بھوک ہڑتال کر کے ہیرو بننے کی کوشش سے بعض رکھنے کی سازش کریں گے۔ جلد ہی رابطہ کمیٹی کی طرف سے یہ بیان آئے گا کہ قائد محترم رمضان کے روزوں اور عبادات کے باعث پہلے ہی سوکھ کر کانٹا ہو رہے ہیں اس لیے انہیں اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اور پھر اگر الطاف بھائی "ہیلووووووووووووووو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری آواز آرہی ہے؟" کے ساتھ خطاب شروع کر کے اپنے ہمدردوں سے بھوک ہڑتال کے بارے میں مشورہ طلب کریں تو مجمع "نہیں بھائی نہیں" کے فرمائشی نعروں کے ساتھ انہیں اپنا فیصلہ بادل نخواستہ واپس لینے پر مجبور کردے گا۔
البتہ ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ الطاف حسین کی جانب سے تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنے کا فیصلہ ان کی زندگی کا وہ دوسرا فیصلہ ہے کہ جس پر مخالفین بھی انہیں استقامت کی دعا دے رہے ہیں۔ اسی طرح کا پہلا فیصلہ پاکستان سے فرار کا تھا اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ آج اپنے دشمنوں ہی کی دعاؤں سے چوبیس سال بعد بھی خود ساختہ جلاوطنی کے فیصلے پر قائم و دائم ہیں۔
ویسے اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو الطاف حسین کا یہ فیصلہ کراچی والوں کے لیے ون-ون سچویشن (win-win situation) ہے۔ اگر اس بھوک ہڑتال کا نتیجہ الطاف بھائی کے انتقال کی صورت میں نکلا تو کراچی کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا اور اگر وہ کسی طرح بچ گئے تو قومی امید ہے کہ ان کا موٹاپا کم ہوجائے گا جس سے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد کی بہت سی بیماریاں بشمول دماغی مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں۔
(محمد اسد:بلاعنوان ویب)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں