بدھ، 20 جولائی، 2016

سبق آموز باتیں : یہ شکوہ جاننے والوں سے ہے


یہ شکوہ کٹنے والوں کا علم ہے 
اپنے اپنے لشکروں میں 
‍‍جن چراغوں سے ذرا بوئے ہوا آئی 
ہوا کے کند نیزے 
جن کو لو مانا گیا 
‍‍
منصورکا شبلی سے شکوہ ہے 
مرا منصور
جس کو دار کی مسند پہ 
ہنستا دیکھہ کر شبلی نے پتھر کی بجائے پھول مارا
اور پہلی بار
اسکی آنکھہ کی چھلنی نے یہ تنکا نہ چھانا 
یار تو, تو جاننے والا ہے 

"
نیلے آسماں سے
کیسے کیسے پھول ان قدموں میں گرتے ہیں 
میں کس کے نام پر ' خوشبو کی چھتری ' 
‍‍ کھولتا ہوں 
بند کرتا ہوں 
میں ہجرووصل کی یہ رَسِّیاں`
کن آنگنوں میں 
لمحہ لمحہ کودتا ہوں "
‍‍
ہاں !
یہ شکوہ جاننے والوں سے ہے 
ان سے 
جنہوں نے منبروں کی اوٹ سے دنیا کے سَیّارے کو دیکھا 
اپنے اپنے دائرے کھینچے
جوباہر رہ گئے ان پر یہ پرکاریں نہ کھولیں 
مسجدوں کے صحن میں گودام بھرنے کے لیے فرقوں کے کالے بیج بوئے
شب میں جاگے تو 
کسی کے حصے کے پانی کو توڑا 
اوراپنی آبیاری کی 
‍‍ ‍‍
یہ عقل و فہم کے ان گنبدوں سے ہے
جنہوں نے مسجدوں سے ڈور توڑی تو کسی چھت پر نہ ٹھہرے 
داڑھیوں کو باڑ سمجھا 
وردیوں کو اصل جانا ، دل کے گھونگھٹ کب اٹھائے 
اپنے اندر جب کبھی کوئی رپٹ لکھی 
تو اک ہی صف بنائی 
اور کھرا ، کھوٹا پلستر کردیا 
پر آنکھ کا نمبر نہ بدلا
‍‍ ‍‍ 
مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ماننے والوں سے شکوہ ہے 
جنہوں نے آج کے اس شَہْرِ طائف میں 
مرے سوہنے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) 
کی دعا کو چھوڑ کر 
اک دوسرے کے واسطے پتھر چنے ہیں
🌲🌲🌲

فقیرنی سسسسنبل

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں