طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)
کشمیر کے ایک طرف فتح کا جشن منایا جا رہاہے اور دوسری طرف موت کی گھن گرج سنائی دے رہی ہے۔ جشن کی ہوائی فائرنگ میں مقبوضہ کشمیر سے موت کی فائرنگ سنائی نہیں دی۔مسلم لیگ نون آزاد کشمیر میں فتح کا جشن منا رہی ہے۔پیپلز پارٹی کا نعرہ’’ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا ‘‘ پنجاب کے بعد اب آزاد کشمیر کے ہر گھر سے بھی بھٹو نکل گیا۔ بری شکست ہوئی۔ البتہ تحریک انصاف کی چند شمعیں ٹمٹما رہی ہیں ۔ اس بار دھاندلی کا شور پیپلز پارٹی کی جانب سے زور پکڑ رہاہے۔ تحریک انصاف کا ’’عمرانی اصول‘‘ رہا ہے کہ جہاں جیت جائو شفاف الیکشن اور جہاں ہار گئے دھاندلی ۔لیکن عمران خان نے خلاف توقع وزیر اعظم کو جیت کی مبارکباد دے کر فراخدلی کا ثبوت دیا۔لاہور اور سیالکوٹ میں سیٹیں ہارنا مسلم لیگ نون کے لیئے لمحہ فکریہ ہے۔ تحریک انصاف عام الیکشن میں ٹف ٹائم دے سکتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کو بلاول کی بچگانہ تقریریں نقصان پہنچا رہی ہیں۔ وزیر اعظم مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو سکے۔ ٹانگ میں تکلیف ہے ۔ صاحبزادی مریم نواز جو کہ سوشل میڈیا کی دنیا میں عمران خان کے بعد مقبولیت میں دوسرے نمبر پر ہیں ، نے والد کی لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے ایک تصویر شیئر کی جس میں وزیر اعظم ایک فائل کا مطالعہ کر رہے ہیں ،تصویر پرلکھا ہے کہ والد دوران سفر بھی کام میں مصروف ہیں ۔ ایک ماں امریکہ سے لاہور جاتے ہوئے طویل ترین سفر کے دوران بھی اپنی ذمہ داری سے فارغ نہیں ہوسکتی۔تما م وقت بچے کو دودھ پلانے ، ڈائپر بدلنے ، کھلانے سلانے میں مصروف رہتی ہے ،لمحہ بھر آرام نہیں ملتا۔ وزیر اعظم انیس کروڑ جانوں کا ذمہ دار ہے ،مختصر سفر میں ایک فائل دیکھ لے تو ’’کام ہو رہاہے ‘‘۔ بچوں جیسی پوسٹ شیئر کرنے سے مقبولیت کی بجائے مذاق بنتا ہے۔ وزیر اعظم کی ملک و قوم سے محبت عملی خدمات کی محتاج ہے ۔ مصنوعی پروپیگنڈا سوشل میڈیا کی رونق تک محدود ہوتا ہے۔ اگر اس طرح ذہن تبدیل کیئے جا سکتے تو عمران خان کبھی کے وزیر اعظم ہوتے ۔وزیر اعظم کے چھٹی پر جانے کی افواہیں پھر گرم ہیں ۔ وزیر اعظم آرمی چیف سے ون ٹو ون ملاقات میں طاہر القادری اور عمران خان کے گٹھ جوڑ کا مسئلہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ آرمی چیف کی اندرونی کہانی ہم نے مہینوں پہلے بریک کر دی تھی کہ آرمی چیف کے عہدہ
کی مدت چار سال کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم تنہا یہ فیصلہ نہیں کر سکتے البتہ جنرل راحیل شریف کو ایکسٹینشن دینے پر رضامند ہیں لیکن جنرل صاحب ایکسٹینشن نہیں بلکہ عہدہ کی مدت مستقل چار سال کر نے کے حق میںہیں۔بات تو مناسب ہے بلکہ حکومت کی مدت بھی پانچ کی بجائے چار سال کر دی جائے۔ جو حکومت چار سال میں کاکردگی پیش کرنے کی اہل نہیں اس کے لیئے پانچ سال بھی کم ہیں ۔ افواہ گرم ہے کہ وزیر اعظم کی علالت کو جواز بنا کر اسحاق ڈار کو وزیر اعظم بنانے کا مشورہ دیا جا رہاہے ۔ ہاتھی نکل گیا دم رہ گئی۔ چار سال ختم ہونے کو ہیں ،تھوڑا عرصہ رہ گیاہے وہ بھی وزیر اعظم نواز شریف نکال جائیں گے ۔ادھر عمران خان کی شیروانی چھوٹی ہو رہی ہے ،لیکن انہیں کون سمجھائے کہ الیکشن جیتنے کے لیئے لوٹے اکٹھے کرنے سے اجتناب کرنا تھا۔ آزاد کشمیر میں بیرسٹر سلطان جیسے تنو مند لوٹے کو پارٹی میں شامل کرکے سمجھے کہ وہ جتوا دیں گے مگر بیرسٹر سلطان خود بھی ڈوب گئے۔وہ اپنی جگہ نالاں ہیں کہ تحریک انصاف کے ٹکٹ نے ان کی شہرت بھی ملیا میٹ کر دی ۔ ہمیشہ جیتنے والا شخص ہار گیا۔ بیرسٹر سلطان کے لیئے پی ٹی آئی میں شرکت اچھا شگون ثابت نہیں ہوئی۔ سب سے زیادہ لوٹے پی ٹی آئی میں شامل ہیں ۔ اس مرتبہ پھر یوم آزادی پاکستان بد مزگی کا شکار ہوتا معلوم ہو رہاہے۔ یوم آزادی کے مو قع پر جلسے جلوس مارچ دھرنوں سے پوری قوم کا ماحول برباد کیا جاتا ہے۔اگست کے موسم میں صرف پاکستان کے پرچم دیکھنے کو جی کرتا ہے ۔حال ہی میں نیویارک بھارتی کمیشن کے سامنے کشمیری بہن بھایئوں سے اظہاریک جہتی کے بھر پور مظاہرے کے دوران صرف کشمیر کے پرچم لہرائے گئے۔ پاکستانیوں کے اس مظاہرے میں سکھ برادری بھی شامل تھی ۔ پاکستانی پرچم کہیں دکھائی نہیں دیا ۔ منتظمین نے بتایا کہ ہم اس مظاہرے کو پاکستان سے نتھی نہیں کرنا چاہتے۔ اس میں ہر وہ انسان شرکت کر سکتا ہے جس کے دل میں کشمیری مظالم کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پاکستانی پرچم سے مخالفین کوالزام تراشی کا موقع مل جاتا ہے کہ مظاہرہ پاکستانی ایجنسیاں کرا رہی ہیں ۔جبکہ گزشتہ چند برسوں سے یک جہتی کشمیر کے لیئے عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ وادی میںجوں جوں ظلم بڑھتا جا رہاہے ہر رنگ نسل کے لوگ بھارتی دہشت گردی سے با خبر ہو رہے ہیں۔ایک پاکستانی اینکر فرما رہے تھے کہ مقبوضہ کشمیر کی تشویشناک صورتحال سے لا تعلق مسلم لیگ نون آزاد کشمیر میں فتح کا جشن منا رہی ہے ۔ مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں ۔ ڈھول بجایا جا رہاہے ۔ اگر تحریک انصاف کو فتح مل جاتی تو پھر جشن منانے پر ان اینکر کو اعتراض نہ ہو تا۔ کوئی پارٹی بھی جیتے ، جموں و کشمیر کے مظلوم بہن بھائیوں کی آہ و بکا کو نظر انداز کرنا بے وفائی ہے۔ کشمیر کے ایک حصے میں ہوائی فائرنگ سے جشن منایا جا رہاہے اوردوسرے حصے میں موت کی گھن گرج جاری ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں