اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ بے کس پناہ میں توبہ کرنے والوں کی بڑی قدرومنزلت ہے۔رب کریم اپنے بندے کی سچی توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ایک تمثیل کے ذریعے سے اللہ رب العزت کی خوشی کو بیان فرمایا ہے۔آپ نے ارشادفرمایا:
’’خدا کی قسم !اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص کی نسبت کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی جنگل بیابان میں سفر کررہا تھا ، سفر کے دوران وہ ایک درخت کے سائے میں آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا اوراس کی آنکھ لگ گئی جب وہ سو کر اٹھا تو (یہ دیکھ کر اسکے ہوش اڑگئے کہ)اس کی سواری گم ہوچکی تھی ،(اس سواری پر اس کا سروسامانِ سفر اورکھانے پینے کے اسباب بھی لدے ہوئے تھے )وہ( حالت اضطراب میں )ایک ٹیلے پر چڑھا اورادھر ادھر دیکھا لیکن کچھ دکھائی نہیں دیاپھر وہ دوسرے ٹیلے پر چڑھا وہاں بھی کچھ دکھائی نہ دیا۔گرمی اورپیاس کی شدت سے بے حال ہوگیا ، مایوس ہوکر کہنے لگا ،میں واپس وہیں چلا جاتا ہوں جہاں پہلے آرام کر رہا تھا اوروہیں پر موت کا انتظار کرتا ہوںچنانچہ وہ اُس جگہ پر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری واپس آرہی ہے ،اس نے بے ساختہ اپنی سواری کی لگام پکڑی اورخوشی کی شدت سے کہنے لگا ، اے میرے اللہ !تومیرا بندہ اورمیں رب ہوں،یعنی خوشی کی شدت سے اس سے خطاہوگئی ۔اس شخص کو سواری ملنے سے جتنی خوشی ہوگی اس سے کہیں زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ سے ہوتی ہے ۔‘‘ (مسلم،ترمذی ،ابن ماجہ)
٭ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی توبہ قبول کرتے ہیں جب تک اس کی موت کا وقت نہ آجائے ۔(ترمذی ،احمد)
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،حضور اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: بندہ جب کوئی خطاکرتا ہے تو اسکے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے سو اگر وہ معافی مانگ لے اورتوبہ کرلے تو اسکے دل سے وہ سیاہ نکتہ صاف کردیا جاتا ہے اوراگر وہ دوبارہ گناہ کرے تو وہ نکتہ بڑھ جا تا یہاں تک کہ اس کا پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے اوریہی وہ ’’ران‘‘ہے جس کا ذکر اللہ رب العز ت نے کلام پاک میں فرمایا ہے ـ’’ہرگز نہیں دیکھو یہ جو اعمال کرتے ہیں ان کے دلوںپر ان کا زنگ بیٹھ گیا ہے‘‘۔(ترمذی ، نسائی ،ابن ماجہ)
٭ حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:تو بہ کا دروازہ ہے جس کے دونوںکواڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مشرق اورمغر ب کے درمیان جب تک سورج مغر ب سے طلوع نہیں ہوتا یہ دروازہ بند نہیں ہوگا۔(طبرانی)
’’خدا کی قسم !اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص کی نسبت کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی جنگل بیابان میں سفر کررہا تھا ، سفر کے دوران وہ ایک درخت کے سائے میں آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا اوراس کی آنکھ لگ گئی جب وہ سو کر اٹھا تو (یہ دیکھ کر اسکے ہوش اڑگئے کہ)اس کی سواری گم ہوچکی تھی ،(اس سواری پر اس کا سروسامانِ سفر اورکھانے پینے کے اسباب بھی لدے ہوئے تھے )وہ( حالت اضطراب میں )ایک ٹیلے پر چڑھا اورادھر ادھر دیکھا لیکن کچھ دکھائی نہیں دیاپھر وہ دوسرے ٹیلے پر چڑھا وہاں بھی کچھ دکھائی نہ دیا۔گرمی اورپیاس کی شدت سے بے حال ہوگیا ، مایوس ہوکر کہنے لگا ،میں واپس وہیں چلا جاتا ہوں جہاں پہلے آرام کر رہا تھا اوروہیں پر موت کا انتظار کرتا ہوںچنانچہ وہ اُس جگہ پر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری واپس آرہی ہے ،اس نے بے ساختہ اپنی سواری کی لگام پکڑی اورخوشی کی شدت سے کہنے لگا ، اے میرے اللہ !تومیرا بندہ اورمیں رب ہوں،یعنی خوشی کی شدت سے اس سے خطاہوگئی ۔اس شخص کو سواری ملنے سے جتنی خوشی ہوگی اس سے کہیں زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ سے ہوتی ہے ۔‘‘ (مسلم،ترمذی ،ابن ماجہ)
٭ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی توبہ قبول کرتے ہیں جب تک اس کی موت کا وقت نہ آجائے ۔(ترمذی ،احمد)
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،حضور اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: بندہ جب کوئی خطاکرتا ہے تو اسکے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے سو اگر وہ معافی مانگ لے اورتوبہ کرلے تو اسکے دل سے وہ سیاہ نکتہ صاف کردیا جاتا ہے اوراگر وہ دوبارہ گناہ کرے تو وہ نکتہ بڑھ جا تا یہاں تک کہ اس کا پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے اوریہی وہ ’’ران‘‘ہے جس کا ذکر اللہ رب العز ت نے کلام پاک میں فرمایا ہے ـ’’ہرگز نہیں دیکھو یہ جو اعمال کرتے ہیں ان کے دلوںپر ان کا زنگ بیٹھ گیا ہے‘‘۔(ترمذی ، نسائی ،ابن ماجہ)
٭ حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:تو بہ کا دروازہ ہے جس کے دونوںکواڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مشرق اورمغر ب کے درمیان جب تک سورج مغر ب سے طلوع نہیں ہوتا یہ دروازہ بند نہیں ہوگا۔(طبرانی)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں