بدھ، 20 جولائی، 2016

سبق آموز باتیں : سقراط کی زندگی کا آخری منظر!




منظر کچھ یوں ھے سقراط کو سزاے موت ھو چکی ھے وہ کئی ھفتوں سے موت کا انتظار کر رھا ھے اسکے شاگردوں کو ملنے میں کوی رکاوٹ نہیں اس کے گرد ھر وقت ھجوم اور فلسفے کے مباحث جاری ,ایتھنز میں سزاے موت سے پہلے ایک بحری جہاز مذھبی رسوم کے لئے جایا کرتا تھا واپسی پر سزاے موت پر عمل درآمد ھوتا تھا ..
جہاز واپس آچکا تھا ,سقراط کی زندگی کی آخری شام ھے اس سے پہلے کرائیٹو نے سقراط کو فرار کی دعوت دی تھی رکاوٹوں کو رشوت کے ذریعے دور کر دیا گیا تھا مگر سقراط نے انکار کردیا ,اس وقت سقراط اپنی کوٹھڑی میں موجود تھا شاگرد بھی گرد موجود آخری مباحثہ روح پر ھو چکا ھے پھر ..وہ اٹھا ملحقہ کمرے میں چلا گیا سورج غروب ھونے والہ تھا سقراط کافی دیر بعد آیا اور سب کے درمیان بیٹھ گیا ,تھوڑی دیر بعد داروغہ جیل اندر آیا اور کہنے لگا اے سقراط تو آج تک آنے والے قیدیوں میں سب سے زیادہ شریف اور نیک ھے جن کو میں قانون کے مطانق زھر کا پیالہ پیش کرتا ھوں میں معمولی کارندہ ھوں امید ھے تم میرے فرض کو میرے لئے آسان کردوگے اور اسکے ساتھ ھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور باھر نکل گیا ,میں وھی کچھ کرونگا جو تم چاھو گے سقراط نے کہا ,
پھر سقراط نے کرائیٹو سے کہا کہ اگر زھر کا پیالہ تیار ھو گیا ھے تو لے آو یا ملازم سے کہ دو کہ زھر کا پیالہ تیار کردے ,کرائیٹونے کہا کہ بہت سے لوگوں نے زھر کا پیالہ کافی دیر سے پیا ھے سورج ابھی پہاڑیوں سے بہت اوپر ھے لہذا اتنی جلدی کی کیا ضرورت ھے ,سقراط بولا کرائیٹو تم سچ کہتے ھو جن لوگوں کا تم ذکر کر رھے انکا خیال تھا کہ وہ دیر سے کچھ حاصل کر لیں گے لیکن میرے خیال میں تاخیر سے کچھ فرق نہیں پڑے گا اس زھر پینے میں دیر کیوں کی جاے ,اور ایسی زندگی کا کیا فائدہ جو پہلے ھی ختم ھو چکی ھے یہ سن کر کرائیٹو نے ملازم کو اشارہ کیا جب لوٹا تو جیلر زھر کا پیالہ لئے ساتھ تھا ,سقراط نے جیلر سے پوچھا اب مجھے کیا کرنا ھے جیلر نے کہا تمہیں زھر پینے کے بعد چہل قدمی کرنی ھے اس وقت تک جب تک تمہاری ٹانگیں بوجھل نہ ھوجائیں اسکے بعد زھر اثر دکھادے گا یہ کہتے ھوے داروغہ نے زھر کاپیالہ سقراط کو پیش کردیا ,سقراط نے بغیر کسی تاثر کے یا پریشانی ظاھر کئے زھر کا پیالہ تھام لیا اور پھر ھونٹوں سے لگایااور نہائت خوشی اور مزے سے سارازھر آخری قطرے تک پی لیا یہ دیکھ کر ارد گرد موجود سب لوگ رونے لگے .اس عالم میں اکیلا سقراط پرسکون تھا وہ بو لا یہ شور کیسا ھے میں نے عورتوں کواسی لئے یہاں سے پہلے بھجوادیا تھا ,پھر وہ کمرے میں چہل قدمی کرنے لگا جب ٹانگیں جواب دینے لگیں تو کمر کے بل لیٹ گیا,جیلر آگے بڑھا اور ٹانگوں کو دبایا اور پوچھا کچھ محسوس کرتے ھو اس نے جواب دیا نہیں ,سقراط نے اپنی ٹانگوں پر خود دباو ڈال کے دیکھا اور بولا جب زھر کا اثر دل تک پہنچے گا تو کہانی ختم ,وہ تقریباٍ ٹھنڈا ھو چکا تھا تو اس لمحے سقراط نے کرائیٹو سے کہا کہ میں نے اسپیکس سے ایک مرغ ادھار لیا تھا کیا تم میرا یہ قرض ادا کردوگے ,کرائیٹو نے جواب دیا قرض ادا کردیا جاے گا اور کوی بات.....اس سوال جواب نہ دیا گیا.....اور سقراط امر ھو گیا ....
(ماخوذ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں